بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || غزہ کی جنگ کے مسئلے اور مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی ریاست کے بے شمار جرائم کے ساتھ ساتھ، اس خطے پر فوجی قبضے میں ان کی ناکامی اور غزہ کی دلدل سے صہیونیوں کو نکالنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کے علاوہ، نیتن یاہو کابینہ کے انتہا پسند دھڑوں کی مغربی کنارے پرمغربی کنارے کے علاقے اور ـ جس کو جسے وہ "یہودا اور سامرہ" کہتے ہیں، ـ کو قانونی حیثیت دینے کی کوششوں نے گذشتہ مہینوں میں ایک بڑا سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔
عام خیال کے برعکس، صہیونیوں کا مغربی کنارے کو اپنے زیر قبضہ علاقوں میں شامل کرنے کی کوشش کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور اس کی تاریخ اس جعلی ریاست کے سنہ 1948 میں قیام سے بھی پرانی ہے؛ یہ ایسا خطہ ہے جس کی تاریخی، مذہبی اور نظریاتی اہمیت صہیونیوں کے لئے تل ابیب اور حیفا سے بھی زیادہ ہے اور صرف بیت المقدس کے ساتھ قابل موازنہ ہے۔
اسی بنا پر ہم 4 تجزیاتی رپورٹوں میں، مغربی کنارے کے صہیونی ریاست کے لئے تاریخی پس منظر اور اہمیت کی وجوہات اور اس کے قبضے کو قانونی شکل دینے کی صہیونی کوششوں کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں، تیسری رپورٹ پیش خدمت ہے:
اردن سے عرفات اور "پی ایل او" کی لبنان نقل مکانی
اگرچہ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے لبنان کو صہیونی مخالف اٹھان دوبارہ شروع کرنے اور قابضوں گیروں کے خلاف مؤثر انداز میں جدوجہد کرنے کے لئے ایک مقام کے طور پر دیکھا تھا، لیکن وہی تلخ واقعات جو اردن کی سرزمین پر رہائش کے دوران پیش آئے تھے لبنان میں بھی دہرائے گئے۔
لبنانی حکومت، جو مارونی عیسائیوں کے غلبے کے تحت تھی، مسلمان فلسطینی افواج کی موجودگی اور لبنانی مذہبی-سیاسی گروہوں کے ساتھ ان کے اتحاد کو اپنے لئے چیلنج سمجھتی تھی، بہت جلد ان کے ساتھ کشیدگی اور تصادم کی پوزیشن پر آگئی جس کا نتیجہ سنہ 1975 میں لبنان کی خانہ جنگی کے آغاز کی صورت میں نکلا اور فلسطینی گروہ بھی اس میں ملوث ہو گئے۔
عرفات کے شام کے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کے ساتھ پیچیدہ اور اتار چڑھاؤ مبنی تعلقات، ـ جو کبھی اتحاد اور کبھی تنازع کی صورت اختیار کرتے تھے ـ بالآخر انہیں کمزور سے دو جانبہ اتحاد تک پہنچے اور سنہ 1982 تک فلسطینی فدائی، لبنان کی خانہ جنگی کے مختلف محاذوں میں موجود ہونے کے ساتھ ساتھ، فلسطین کے زیر قبضہ شمالی علاقوں میں صہیونیوں پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے تھے اور شامی حکومت ان کی کی مالی اور عسکری مدد کرتی تھی۔

شہید کمال عدوان
مارچ سنہ 1978 میں تل ابیب کی ساحلی سڑک پر فلسطینی فدائیوں ـ اور ان میں سب سے نمایاں 'دلال مغربی' کے ہاتھوں ـ کا مشہور 'کمال عدوان آپریشن' سب سے اہم آپریشن تھا جس کے نتیجے میں سنہ 1982 میں صہیونیوں کو وادی بقاع میں شام کے فضائی دفاعی سسٹمز پر بمباری کی اور پھر عرفات کی افواج کو لبنان سے نکال باہر کرنے کی غرض سے بیروت تک ے پیش قدمی کی۔

فلسطینی خاتون کمانڈر شہیدہ دلال المغربی
لبنان ہو، تیونس یا قطر، اسرائیلی قبضے کی کوئی حد نہیں ہے
صہیونی افواج نے فلسطینی کیمپوں میں صغیر و کبیر کا قتل عام کیا اور بیروت کو گھیر لیا، جس کے بعد عرفات اور ان کی افواج کو ایک سیاسی معاہدے کے تحت لبنان سے جانا پڑا۔
ان سالوں کی ناکامیوں کے بعد فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے ـ اپنی فوجی طاقت کی بحالی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ، جس کے نتیجے صہیونی ریاست نے سنہ1985 میں تیونس جیسے دور دراز مقام پر بھی حملے کئے، ـ آہستہ آہستہ، مصالحت کا سیاسی راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں سنہ 1991 میں بین الاقوامی ثالثی کے ذریعے ایک 'امن عمل' (Peace Process)، میڈرڈ کانفرنس میں فلسطینی گروپوں، عرب ممالک، صہیونی ریاست، امریکہ اور سوویت روس کی ثالثی میں شروع ہؤا، لیکن اسی مرحلے پر بھی صہیونیوں کی توسیع پسندی اور جارحیت سے پیدا ہونے والا پیچیدہ مسئلہ معاملے میں ایک گتھی بن کر رہ گیا۔

تیونس جانے والے صہیونی جنگی طیاروں کا راستہ
امن مذاکرات کے دوران ہی انتہاپسند یہودی تحریک کا قیام!
اسی دوران ـ اس دور کے ـ صہیونی وزیراعظم اسحاق شامیر، ـ جو زیف جبوتنسکی (Ze'ev Jabotinsky) کے فکری بیٹے اور جرائم پیشہ ایرگون (Irgun) کا سابق رکن ـ نے مغربی کنارے میں آباد کاری کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے، انتہا پسند صہیونیوں کی ایک نئی تحریک کو فعال کر دیا تھا۔ اس نئی تحریک کو اس کے ہم جماعتی میناخم بیگن نے سنجیدگی سے شروع کیا تھا۔ شامیر اور اس کی تحریک نے مغربی کنارے کا پرانا مذہبی نام "یہودا اور سامرہ" استعمال کرکے اس معاملے کو مذہبی رنگ دیا؛ اور اوسلو معاہدے اور اسحاق رابین کی قیادت میں اسرائیلی بائیں بازو کی طرف سے اتفاق رائے کے بعد بھی، ان گروہوں کی سرگرمیاں اسحاق رابین کے قتل کی صورت میں نمایاں ہوئیں؛ یہ قتل دائیں بازو کے انتہا پسند صہیونی ایگل عمیر کے ہاتھوں ہؤا۔

ایگال عمیر دائیں جانب اور اسحاق رابین بائیں جانب
ان ٹولوں کے عقائد کے مطابق یہودا اور سامرہ (موجودہ مغربی کنارے) مبینہ یہودی بادشاہی کا مقدس اور لازمی حصہ ہیں، جو یہودی مذہبی متون ـ بشمول توریت اور [جعلی مذہبی کتاب] تلمود ـ میں مذکور ہیں اور ان ٹولوں کے تصور کی رو سے انہیں ہر قیمت پر اسرائیل کی سرزمین میں شامل ہونا چاہئے! اور ان علاقوں کے بارے میں کوئی سمجھوتہ یا مصالحت نہیں ہونی چاہئے؛ ان کے خیال میں ان علاقوں کے فلسطینی باشندے، ـ خواہ مسلمان ہوں یا عیسائی، ـ ان کی راہ میں خلل اور رکاوٹ ڈالنے والے ہیں جنہیں بتدریج وہاں سے نکال دینا چاہئے اور وہاں ایک یک مشت یہودی آبادی کو آباد کرنا چاہئے۔

حلانکہ یہودا اور سامرہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے پہلے ایک مختصر تاریخی دور میں یہودی حکومت کے کنٹرول میں تھے، جن کی طاقت کا دور زیادہ دیر تک نہیں رہا اور عیسائیت کے ظہور کے ساتھ، یہودا اور سامرہ کی اکثریتی آبادی، ـ جو درحقیقت موجودہ مغربی کنارے کو تشکیل دیتے ہیں ـ نے عیسائی مذہب اختیار کیا اور بعد میں اسلامی فوج کے ذریعے اس خطے پر قبضے کے ساتھ، مسلمان ہو گئے اور اس کے بعد یہودی اس خطے میں ایک چھوٹی اقلیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ